حفیظ اللہ حسنی کو اغوا کرنے والا آرمی میجر کون تھا؟ کھریاں کھریاں۔۔۔راشد مراد۔۔۔12/09/2020
- RMTV London
- Sep 14, 2020
- 7 min read

آج کھریاں کھریاں میں اغوا برائے تاوان کی اس واردات کا زکر کرنا ہے جس میں فوج کے افسران شامل ہیں اور ایک میجر تو سزا یافتہ ہو کر ان دنوں جیل میں بھی ہے۔۔۔یہ خبر بی بی سی نے بھی دی ہے لیکن اس خبر میں بہت ساری اہم معلومات شامل نہیں ہیں جو کہ آج ٓاپ سے شئیر کرنی ہیں۔
سب سے پہلے تو میں اپنی ایک غزل کے دو شعر سناوں گا۔۔۔غزل ہے تو پرانی لیکن جس وقت یہ غزل لکھی تھی اس وقت بھی ایک جرنیل کا راج تھا اور ان دنوں بھی جرنیلی راج ہے۔
جادوگر کی جان ہے جس میں اس طوطے کو ماریں
ورنہ اپنے زندہ رہنے کا امکان نہیں ہے
اپنے پہرےدار کے ڈر سے بھی ہم جاگ رہے ہیں
یہ بیداری صرف حریفوں کا احسان نہیں ہے
باجوائی پاکستان کی صورت حال مکمل طور پر ان شعروں والی ہے۔۔۔پاکستان کے لوگ ان دنوں اپنے ہی پہریداروں کے ہاتھوں لُٹ رہے ہیں۔۔۔یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔۔۔مشرقی پاکستان بھی ہمارے ہاتھوں سے اسی لئے چلا گیا تھا کہ وہاں پر پاکستانی پہرےداروں نے لوٹ مار بھی مچا رکھی تھی اور ساتھ ساتھ ان مسلمان بنگالی خواتین کے ساتھ وہ کچھ کیا جا رہا تھا جو کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ بلوچستان میں ہوا اور اس واردات میں شامل درندہ فوج کی وردی میں تھا اور اس کا نام تھا غالبا کیپٹن حماد۔۔۔شہید اکبر بگٹی نے اس خاتون کی آبرو ریزی پر آواز بلند کی اور اس فوجی کپتان کے لئے سخت سزا کا مطالبہ کیا لیکن جنرل پرویز مشرف نے اپنے کپتان کا ساتھ دیا۔۔۔بالکل اسی طرح جس طرح ان دنوں ایک نیم ریٹائرڈ باجوے کا ساتھ ایک فور اسٹار جنرل قمر باجوہ دے رہا ہے۔
نکے باجوے کے ٹبر کے کاروبار اور ڈالروں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں۔۔۔ان کا حساب کتاب لینے یا فوجی احتساب کی زبان میں یوں کہہ لیں رسیداں کڈھو والی شریفانہ فرمائش کرنے کی بجائے اُن لوگوں کو شمالی علاقہ جات کی سیر کےلئے لے جایا جا رہا ہے جو اس پاپا جی پیزے والے سے امریکی ڈالروں کا حساب کتاب مانگ رہے ہیں۔۔۔ابصار عالم جیسے حق گو صحافی پر تو غداری کے فتوے کے علاوہ ایک ایف آئی آر بھی کاٹ دی گئی ہے۔
جرنیلی اغوا برائے تاوان کے جس واقعے کا زکر میں نے شروع میں کیا ہے اس کے حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے بھی کچھ باتیں کی ہیں اور یہ خبر ایک بلوچ ویبسائٹ کے علاوہ بی بی سی اردو نے بھی شائع کی ہے۔
بی بی سی کی خبر کے مطابق ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین سے ایک لاش ملی ہے جس کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ تین سال پرانی لاش ہے۔چار سال قبل بلوچستان سے لاپتہ ہو جانے والے کاشتکار حفیظ اللہ محمد حسنی کے گھر والوں نے اس لاش کی شناخت کر لی ہے اور کہا ہے کہ یہ ان کے لاپتہ عزیز کی لاش ہے۔۔۔نعمت اللہ جو کہ حفیظ اللہ محمد حسنی کے بھائی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی تیس اگست دو ہزار سولہ سے لاپتہ تھا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول کے بھائی نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار حفیظ اللہ کو چار سال قبل زبردستی لے گئے تھے اور انہوں نے اس کی رہائی کے لئے اڑسٹھ لاکھ روپے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔۔۔۔مقتول کے خاندان نے وردی والے اغوا کاروں کا یہ مطالبہ بھی پورا کیا لیکن اس کے باوجود مقتول کو رہا نہیں کیا گیا۔
بی بی سی کی خبر میں گول مول انداز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے مطابق دوہزار انیس میں ایک افسر پر یہ جرم ثابت ہونے کے بعد ان کا کورٹ مارشل کر کے انہیں جیل بھیجا جا چکا ہے۔۔۔اصولی طور پر تو اس خبر میں اس فوجی افسر کا نام بھی ہونا چاہئے تھا اور عہدہ بھی اور ساتھ ہی اس بات کی وضاحت بھی ہونی چاہئے تھی کہ اس کا کورٹ مارشل کن جرائم پر ہوا ہے۔۔۔کیا اسے صرف حفیظ اللہ کو اغوا کرنے اور رقم وصول کرنے کی سزا دی گئی ہے یا اسے حفیظ اللہ کو قتل کرنے کی بھی سزا دی گئی ہے۔۔۔بی بی سی کے رپورٹر نے ہو سکتا ہے کہ مزید حقائق جاننے کی کوشش بھی کی ہو لیکن چونکہ مجرم کا تعلق فوج سے ہے اس لئے مجرم کی شناخت کے بارے میں جاننا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔۔۔اس وقت تو باجوائی راج میں ریٹائرڈ فوجیوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال ہو رہا ہے۔۔۔احمد نورانی کی نئی اسٹوری ہی دیکھ لیں۔۔۔اس میں بتایا گیا ہے کہ پیزے والے پاپا جی کو بچانے کے لئے ان کے بیٹوں کی کمپنیوں کو ہی ایس ای سی پی کے ریکارڈ سے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔۔۔نہ رہے گے بانس نہ بجے گی بانسری۔
حفیظ اللہ کے ساتھ فوجی پہرےداروں کی اس زیادتی کے حوالے سے کچھ اور لوگوں نے بھی معلومات شئیر کی ہیں ۔۔۔میں نے ایک صاحب سے یہ پوچھا کہ چار سال بعد یہ لاش دریافت کیسے ہو گئی ۔۔۔فوج والوں نے جب اپنے افسر کا کورٹ مارشل کیا تھا تو اس وقت یہ لاش ورثا کے حوالے کیوں نہیں کی گئی۔۔۔اگر یہ لاش چار سال پہلے ورثا کو دے دی جاتی تو شاید فوج کی اتنی بدنامی نہ ہوتی۔۔۔ان دنوں تو پوری دنیا میں جرنیلی وارداتوں کے چرچے ہیں۔۔۔عاصم باجوہ کی وجہ سے فوجی جرنیل بین القوامی طور پر بدنام ہو چکے ہیں۔۔۔انہوں نے اس ماحول میں اس میت کو سامنے کیوں آنے دیا۔۔۔میرے اس سوال پر ان صاحب کا جواب یہ تھا کہ شہید حفیظ اللہ کا بھائی بیس ستمبرسے احتجاج شروع کرنے والا تھا۔۔۔اس لئے شاید اس احتجاج کو روکنے کے لئے ہڈیوں کا ڈھانچہ ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ان صاحب کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کورٹ مارشل والی کاروائی بھی اُس وقت کی گئی تھی جب شہید حفیظ اللہ کے گھر والوں نے اپنے عزیز کی گمشدگی پر بھر پور احتجاج شروع کر دیا تھا اور اس احتجاج کو روکنے کے لئے فوجی افسر کے خلاف کاروائی کر کے حالات کو کنٹرول میں کیا گیا تھا۔
ایک اور صاحب جو اسی قبضہ گروپ کے سابقہ ممبر ہیں۔۔۔ دروغ بر گردنِ راوی جو کہ اس کیس میں قبضہ گروپ کا ہی سابقہ ممبر ہے ۔۔۔اس کا کہنا ہے کہ یہ خبر قبضہ گروپ کے اُسی میجر نے Leak کی ہے جو کہ اس فوجی اغوا برائے تاوان کیس کی تحقیقات کر چکا ہے اور اسے سارے حقائق کا علم ہے۔۔۔ ان دنوں جنرل باجوہ نے بہت سارے فوجی افسروں کو نوکری سے فارغ کیا ہے اور ان میں یہ افسر بھی شامل تھا۔۔۔اس افسر نے وردی اتارتے ہی اب اپنی زبان بھی کھول دی ہے اور اس فوجی اغوا برائے تاوان والی واردات کا انجام بھی بتا دیا ہے۔
اغوا برائے تاوان کی اس واردات میں ملوث فوجی افسر جس کا نام قبضہ گروپ کے اس سابقہ ممبر نے میجر نوید بتایا ہے جو کہ ہیڈ کوارٹرز دالبدین رائفلز میں بطور ایڈجوٹینٹ تعینات تھا۔۔۔ فوج میں یہ ایک سو چوراسی ایس پی رجمنٹ آرٹلری میں تھا اور وہاں سے اس کی پوسٹنگ ہیڈ کوارٹرز دالبندین رائفلز ایف سی بلوچستان میں ہوئی۔ میجر نوید کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے ہے ۔۔۔کورٹ مارشل کے بعد یہ خود تو جیل میں ہے لیکن اس کی بیوی کو پشاور والے آرمی اسکول میں نوکری دے دی گئی ہے۔۔۔۔پشاور والے آرمی اسکول کا تو آپ سب کو اچھی طرح پتہ ہے کہ وہاں پر معصوم پاکستانی بچوں کا قبضہ گروپ کی نگرانی میں قتل عام کیا گیا تھا۔
میجر نوید کے کورٹ مارشل کی تفصیلات بھی ان صاحب نے بتائی ہیں جن کے مطابق کورٹ مارشل تینتس ڈویزن کوئٹہ میں ہوا اور میجر جنرل احسن خٹک ایف جی سی ایم کا صدر تھا۔۔۔کورٹ مارشل کے نتیجے میں میجر نوید کو عمر قید کی سزا دی گئی لیکن اس کی اپیل اس وقت بھی پینڈنگ ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ جرنیلی انصاف جوش مار جائے اور اسے بھی رینجرز کے ان اہلکاروں کی طرح چھوڑ دیا جائے جنہوں نے کراچی میں ایک بے گناہ شہری کو قتل کیا تھا۔
میجر نوید کا حدود اربعہ بتانے والے اس سابقہ فوجی کا یہ بھی دعوی ہے کہ اغوا برائے تاوان کی اس واردات میں جو رقم وصول کی گئی وہ بڑے فوجی کمانڈروں تک حصہ بقدر جثہ یا یوں کہہ لیں کہ حصہ بقدر عہدہ پہنچائی گئی اور ان حصہ وصول کرنے والوں میں وہ بندہ بھی ہے جسے آپ پاپا جی پیزے والے کےنام سے جانتے ہیں۔۔۔میں نے ان صاحب نے کہا کہ وہ اپنے ان الزامات کا کوئی ثبوت بھی دیں تو ان کا کہنا تھا کہ قبضہ گروپ میں کسی واردات کا کوئی ثبوت نہیں چھوڑا جاتا۔
کمانڈ فنڈ کا حوالہ دیتے ہوئے ان صاحب نے کہا کہ جس طرح اس فنڈ میں ہونے والی جرنیلی ہیرا پھیری کا کوئی آ ڈٹ نہیں ہوتا اسی طرح باقی جرنیلی وارداتوں کا دستاویزی ثبوت دینا ناممکن ہے۔۔۔ ان صاحب نے اپنا زاتی تجربہ شئیر کیا اور کہا کہ جب وہ ایک کور کمانڈر کے ساتھ کام کر رہے تھے تو وہ تین لاکھ ماہانہ اپنے کمانڈر کے کچن کے اخراجات کے لئے اپنے ہاتھوں سے دیا کرتے تھے لیکن اس کی کوئی رسید وغیرہ یا اکاونٹنگ نہیں ہوتی تھی۔
بہرحال میں نے آپ سے شہید حفیظ اللہ کے حوالے سے جو بھی غیر مصدقہ معلومات مجھ تک پہنچی ہیں وہ سب آپ کے ساتھ شئیر کر دی ہیں۔۔۔ان میں سے کچھ باتیں ہو سکتا ہے کہ باجوائی پاکستان کے جرنیلی سچ والے لیول کی نہ ہوں لیکن پھر بھی یہ تلخ اور افسوسناک حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے کہ ایک پاکستانی شہری اپنے پہرےداروں کے ہاتھوں اغوا ہوا۔۔۔اس کے گھر والوں نے اڑسٹھ لاکھ تاوان ادا کیا۔۔۔یہ رقم یقیننا ان اغوا کاروں میں تقسیم ہوئی جو کہ فوجی وردیوں والے تھے۔۔۔تاوان لینے کے باوجود اس مظلوم شہری کو رہا نہیں کیا گیا۔۔۔سالوں تک شہید حفیظ اللہ کی ماں کو اپنے بیٹے کے انتظار میں رکھا گیا اور آخر میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ اس بد قسمت ماں کے حوالے کیا گیا جسے یہ ڈھانچے اڑسٹھ لاکھ میں پڑا ہے۔۔۔اس ڈھانچے کو ڈی این اے کے بغیر ہی شناخت کروایا گیا ہے اور اس کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہو رہی جو کہ یقیننا ان سب فوجی افسروں کے خلاف ہونی چاہئے جو کہ اس جرم میں ملوث ہیں۔
Comments