شہید کی جو موت ہے وہ جرنیل کی حیات ہے۔کھریاں کھریاں۔۔۔راشد مراد۔۔۔15/09/2020
- RMTV London
- Sep 16, 2020
- 6 min read

آپ سب نے یہ مصرعہ تو بہت بار سنا ہو گا۔۔۔
شہید کی جو موت ہےوہ قوم کی حیات ہے
بات تو شاعر نے درست کہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا عملی طور پر ایسا ہو رہا ہے۔۔۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سرحدوں پر اور شہروں میں شہادتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ان شہادتوں سے کیا قوم کو حیات مل رہی ہے۔۔۔میری زاتی رائے میں تو یہ بات درست نہیں ہے۔۔۔آپ کو ہو سکتا ہے کہ میری یہ بات بری لگے اور اگر آپ بھی فوجی مطالعہ پاکستان والی نسل میں سے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ آپ غداری کا فتوی بھی لگا دیں۔۔۔لیکن اگر آپ آج کا یہ پروگرام فوجی مطالعہ پاکستان والی عینک اتار کر دیکھیں گے تو میرا دعوی ہے کہ آپ بھی اس مصرعے میں ترمیم کر دیں گے اور یہ مصرعہ جرنیلی پاکستان کی گراونڈ ریلیٹی کے مطابق یوں ہو جائے گا۔۔۔
شہید کی جو موت ہے جرنیل کی حیات ہے
جنرل باجوہ کے فوجی جوانوں کی شہادتوں والے بیان پر انہی میں سے ایک گھر کے بھیدی نے بتایا ہے کہ شہادتوں سے فائدہ نہ تو فوج کو ہو رہا ہے اور نہ ہی قوم کو بلکہ صرف اور صرف قبضہ گروپ کے جرنیل اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور ڈالروں کے علاوہ سارے کے سارے پلاٹ زرعی مربعے اور بیرون ملک جائیدادیں جرنیلوں کے حصے آتے ہیں اور انہی کی حفاظت کے لئے یہ اپنے بچوں کو پاکستان سے باہر بھجوا دیتے ہیں۔
ایسے ہی ایک جرنیل مخالف فوجی نے ہمیں کچھ معلومات اکٹھی کر کے دی ہیں جن سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ شہادت کی تبلیغ کرنے والے جرنیلوں کے اپنے بچے اس نعمت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے اور یہ جرنیلی بچے فوج میں جانے کی بجائے پاکستان سے باہر فوج میلہ کرنے میں زیادہ دلچسپی کیوں لیتے ہیں۔
پاپا جی پیزے والے کے پورے ٹبر کی حقیقت بھی حال ہی میں آپ نے دیکھ لی ہے۔۔۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے اس مرد مجاہد کے بچے بھی باہر ہیں اور پاکستان سے ابا جی کا کمایا ہوئے مال کا بھی زیادہ حصہ انہوں نے پاکستان سے باہر انویسٹ کر رکھا ہے۔۔۔یعنی نہ تو یہ باجوائی جرنیل اپنے بچوں کو پاکستان میں شہید کروانا چاہتا ہے اور نہ ہی جرنیلی دھندے سے کمائی ہوئ دولت کو پاکستان میں رکھ کر کسی قسم کا خطرہ مول لینا چاہتا ہے۔
باقی جرنیلوں کی آل اولاد کی بات کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دوں کہ جن شہادتوں کا یہ زکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔۔۔اگر آپ غور کریں تو وہ سرحدوں پر کم اور ملک کے اندر زیادہ ہو رہی ہیں۔۔۔یہ شہادتیں چھوٹے صوبوں میں اپنے ہی عوام کے خلاف جنگ کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔۔۔سادہ زبان میں یوں کہہ لیں کہ یہ لوگ اپنی بہادری کا مظاہرہ سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والے دشمن کی بجائے اپنے ہی نہتے عوام کے خلاف کرتے ہیں اور وہ بھی ان مظلوم عوام کے خلاف جو اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور سے اب تک یہ فوج اپنے ہی لوگوں کے ساتھ جنگ لڑ رہی ہے اور اس جنگ میں کام آنے والے فوجی جوان اور افسروں میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کا ان جرنیلوں سے قریبی رشتہ ہے۔۔۔اس گفتگو کا مقصد ان جوانوں کی شہادتوں پر کوئی تنقید کرنا نہیں ہے ۔۔۔صرف اور صرف یہ واضح کرنا ہے کہ یہ شہادتیں پاکستان کے کام نہیں آ رہیں بلکہ ان سے قبضہ گروپ کے قبضے کو مضبوط رکھنے کا کام لیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو فتح کرنے والے پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان سے بات شروع کر لیتے ہیں۔۔ اس کے دو بیٹے فوج میں تھے۔۔گوہر ایوب اور اختر ایوب لیکن جیسے ہی اس فراڈ مارشل نے ملک پر قبضہ کر لیا اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو فوج سے نکلوا لیا اور مال کمانے والے دھندے میں لگا دیا۔۔۔پینسٹھ کی جنگ میں بھی اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو جنگ سے دور رکھا حالانکہ سابقہ فوجی ہونے کے ناطے سے ان دونوں کو جنگی صورت حال میں فوج میںRecall کیا جانا چاہئے تھا۔۔۔پینسٹھ کی جنگ میں بہت سارے سابقہ فوجیوں کو Recall کیا گیا اور ان میں سے بہت سارے فوجیوں نے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں لیکن اس جنگ کے دوران فراڈ مارشل ایوب خان کے بچے ہری پور کے باغات میں جھولے جھولتے رہے۔
ایوب خان کے بعد بھی جرنیلوں نے یہ دستور اپنایا اور جنگ کا ایندھن اپنے بچوں کی بجائے غریب عوام کو ہی بنایا۔۔۔افغانستان والے جرنیلی مجاہد ضیا الحق کے برخوردار بھی جنگ کے میدان سے کوسوں میل دور رہے اور فاتح افغانستان کا لقب پانے والے جرنیل اختر عبدالرحمان کے بیٹے بھی جہاد کے دنوں میں ابا جی کی افغانی کمائی سے دھندے میں مصروف تھے اور اب سیاست بھی کر رہے ہیں اور دولت میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔
جنرل حمید گل، جنرل عبدالوحید کاکٹر، جنرل جہانگیر کرامت وغیرہ بھی انہی جرنیلوں میں ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو فوج سے دور رکھا بلکہ ان کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے بچوں کو واہگہ والے بارڈر پر ہونے والی فوجی تقریب میں بھی جانے نہیں دیتے تھے کہ کہیں کسی دھماکے میں شہید ہونے کا اعزاز نہ حاصل کر لیں۔
پھانسی کی سزا پانے والے جنرل پرویز مشرف کے بیٹے کو ہی دیکھ لیں۔۔۔۔اس نے کارگل میں ہزاروں نوجوانوں کو مروا دیا لیکن اپنے بچے کو امریکہ میں سیٹل کیا اور اسے فوج میں شامل ہو کر ملک کی خدمت سے محروم رکھا۔۔۔آسٹریلیا میں جزیرے کے حوالے سے شہرت پانے والے جنرل کیانی کی آل اولاد کا بھی یہی حال ہے۔۔۔جنرل باجوہ سے پہلے والے چیف راحیل شریف نے بھی اپنے کسی بچے کو فوج میں بھرتی نہیں کروایا۔
آج بھی باجوائی ڈائن بڑے فخر سے کہہ رہی ہے کہ میرے جوان ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں مگر ان کے اپنے جوان بیٹے اس کام کے لئے تیار نہیں ہیں اور مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔یہاں میں آپ کو ملکہ برطانیہ کی مثال بھی دے دوں۔۔۔اس کے بیٹے اور پوتے نہ صرف فوج میں گئے بلکہ انہوں نے عملی طور پر جنگوں میں بھی حصہ لیا۔۔۔شہزادہ ہنری تو افغانستان میں ہلمند کے محاذ پر تعینات رہا۔۔۔لیکن اس کے برعکس آپ ان پاکستانی جرنیلوں کے بچوں کو دیکھ لیں۔۔۔پاکستانی فوج تو کجا ان میں سے زیادہ تر پاکستان ہی میں نہیں پائے جاتے۔
ہمارے ساتھ جرنیلی سپوتوں کی معلومات شئیر کرنے والے صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا کور کمانڈر ہو جس کا بیٹا اس وقت فوج میں ہو۔۔۔ان صاحب نے بہت سارے واقعات کا زکر بھی کیا ہے جن میں ہمارے جوانوں نے قربانیاں دیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان قربانی دینے والوں میں جنرل تو دور کی بات ہے کسی بریگیڈیر کا بیٹا بھی نہیں تھا۔۔اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ ملٹری سیکرٹری برانچ میں بیٹھا ہوا جرنیل جانتا ہے کہ فوج کے سینئیر افسران کے بیٹوں کو اگر وہ فوج میں ہوں تو ان کو کس طرح محاذِ جنگ سے دور رکھنا ہے۔
باجوائی دعوے کے مطابق ستر ہزار لوگ جنگوں میں قربان ہوئے ہیں لیکن ان سے پوچھنا یہ ہے کہ ستر ہزار جانیں دینے والوں میں کیا کسی جرنیل یا بریگیڈئر کا بیٹا بھی شامل ہے۔
ایک بہت بڑے بلکہ بوڑھے دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ اس عظیم مجاہد کے دو بیٹے فوج میں تھے مگر مشرف دور میں اس نے دونوں کو قبل از وقت ریٹائر کروایا اور انہیں فوج سے تعلق رکھنے والے کاروباری ادارے میں لگوا دیا۔۔۔اب یہ جرنیلی بچے ایئرکنڈیشند کمروں میں فوج میلہ کر رہے ہیں اور ان کے ابا جان ٹی وی پر بیٹھ کر بھولے بھالے پاکستانیوں کو فوج اور جہاد کی فضیلت کا درس دیتے رہتے ہیں۔
عاصم سلیم باجوہ کے بیٹوں کی اسٹوری بریک کرنے والے صحافی احمد نورانی نے بہت سال پہلے بھی ایسی ہی ایک اسٹوری پر کام کیا تھا اور بتایا تھا کہ میجر جنرل اعجاز شاہد جو کہ آئی جی ایف سی بلوچستان تھا اس نے اپنے بیٹے کے لئے مہنگی ترین اسپورٹس کار منگوائی اور پھر دو فوجی افسروں کو اسپورٹس کار کی ٹیسٹ ڈرائیو کے لئے کہا اور اس ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران حادثہ ہوا اور یہ دونوں افسر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کالم لمبا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔اس لیئے بات کو سمیٹے ہوئے ان جرنیلی بچوں کے بارے میں آپ سے وہ خبر بھی شئیر کر لوں جس کا انکشاف بھی انہیں صاحب نے کیا ہے۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ یہ جرنیل اپنے بچوں کو اول تو فوج سے دور رکھتے ہیں لیکن ضیا الحق کے دور سے انہوں نے فوج کو اپنے بچوں کے لئے لانچنگ پیڈ کے طور استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔۔۔ضیا الحق نے سول بیورو کریسی میں فوج کا کوٹہ مقرر کر دیا تھا۔۔۔اس کوٹے کا فائدہ اٹھانے کے لئے یہ اپنے نالائق بچوں کو فوج میں عارضی طور پر بھیجتے ہیں۔
کاکول والے مدرسے میں تعلیم مکمل کرتے ہی اس جرنیلی بچے کو فاسٹ ٹریک میں کپتان بنایا جاتا ہے اور پھر اسے بغیر کسی امتحان کے سول سروس میں اسسٹنٹ کمشنر یا اے ایس پی پولیس بنوا دیا جاتا ہے۔۔۔ان جرنیلی بچوں کو سول سروس جوائین کرتے وقت دوسرے افسروں پر سینارٹی بھی مل جاتی ہے اور یوں یہ نالائق جرنیلی بچے مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والے بلڈی سویلین سے سینئیر ہو جاتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ایوب خان سے لے کر جنرل باجوہ بشمول پیزے والے جرنیل عاصم باجوہ کے ہر جرنیل نے جوانوں کی قربانیوں اور شہادتوں والا وظیفہ پڑھا لیکن کسی بھی جرنیل نے اپنے بچوں کو محاذِ جنگ کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا۔
Comments