top of page
Search

مطیع اللہ جان کی ٹوئیٹ، اغوا اور ہتھوڑا گروپ کے ٹاوٗٹ ۔۔۔کھریاں کھریاں۔۔۔راشد مراد۔۔۔21/07/2020


آج کھریاں کھریاں میں بات کرنی ہے حق گو سرپھرے اور اغوا شدہ صحافی مطیع اللہ جان کی ۔۔۔جس کی ایک ٹوئیٹ نے پاکستان کے ہتھوڑا گروپ کی عزت اور آبرو کو اتنا تار تار کر دیا ہے کہ اس کے خلاف عدالتی کاروائی بھی شروع کر دی گئی ہے لیکن اس قانونی کاروائی پر اکتفا کرنے کی بجائے ٓاج اسے قبضہ گروپ کے ایجنٹوں نے اغوا بھی کر لیا ہے۔

مطیع اللہ جان ایک عرصے سے صحافت کے میدان میں اس گھوڑے کی طرح دوڑ رہا ہے جس پر نہ تو کوئی محکمہ زراعت کا ملازم سوارہے اور نہ ہی کسی میڈیا ہاوس کے سیٹھ کے ہاتھ میں اس کی لگام ہے۔۔۔اسی بے لگامی کا نتیجہ ہے کہ اس کی یہ بھاگ دوڑ نہ تو قبضہ گروپ کے لوگوں کو اچھی لگتی ہے اور نہ ہی میڈیا کے سیٹھوں کو۔۔۔کیونکہ ان سیٹھوں کو صحافت سے زیادہ اس دولت سے پیار ہے جو وہ اس دھندے کے زریعے کما رہے ہیں۔



بہت ساری صحافتی طوائفیں بھی مطیع اللہ جان کے خلاف ہیں کیوں کہ یہ ان کے صحافتی مجروں اور ان کے تماشبینوں کو بے نقاب کرتا رہتا ہے۔۔۔ ویسے میں اس کے نام سے تو بہت عرصے سے واقف ہوں لیکن اس کی گنڈاسے والی صحافت کا پتہ اس پروگرام سے چلا جس میں اس نے ایک خاتون صحافی جسے میں کافی معتبر سمجھتا تھا اس پردہ دار بی بی کے سرکاری خرچے پر حج کا بھانڈا پھوڑا۔

مطیع اللہ جان ان چند ایک صحافیوں میں سے ہے جنہوں نے کسی حکومت سے نہ تو کوئی پلاٹ اور نہ پرمٹ حاصل کیا ہے۔۔۔ اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ایسے فرشتے ہیں جو کامران خان ٹائپ کے صحافیوں کو زر اور زمین حاصل کرنے کے لئے اندر کی خبریں مہیا کرتے ہیں۔۔۔دروغ بر گردنِ راوی ان دنوں یہ لوگ صحافیوں کو زر اور زمین کےعلاوہ زن بھی مہیا کر دیتے ہیں۔

اپنی اسی بیباک اور منہ پھٹ صحافت کی وجہ سے یہ کافی دنوں سے صحافت کی منڈی سے باہر ہے اور آج قبضہ گروپ کے مہمان خانے میں پہنچا دیا گیا ہے۔۔

پچھلے دنوں اس کی ایک ٹوئیٹ سپریم کورٹ کے ہتھوڑا گروپ کے موجودہ نثار ثاقب کو بہت ناگوار گزری ہے۔۔۔اور یہ ناگواری اس حد تک ہے کہ ہتھوڑا گروپ جس کے پاس چالیس ہزار سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔۔۔اس نے ان مقدمات کی چھوڑ کر اس ٹویٹ پر نہ صرف نوٹس لیا ہے بلکہ اس کی سماعت کے لئے تاریخ بھی مقرر کر دی ہے۔



میری زاتی رائے میں تو یہ نوٹس بھی انہی لوگوں کی طرف سے آیا ہے جن کے بارے میں سوشل میڈیا پر مشہور ہے کہ یہ لوگ ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے کچن سے پکے پکائے فیصلے شاہراہ دستوں پر ڈیلیور کرتے ہیں۔۔۔مطیع اللہ جان کی اس ٹویٹ کو تو محض ایک بہانہ بنایا گیا ہے۔۔۔اصل مسئلہ تو اس پروگرام کا ہے جو کہ قاضی فائز عیسی کے کیس کے فیصلے کے فورا بعد مطیع اللہ جان نے کیا تھا اور اس میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل کا انٹرویو بھی کیا تھا۔۔۔مطیع اللہ جان کے اس پروگرام نے قبضہ گروپ کی اس سازش کو فوری طور پر بے نقاب کر دیا تھا جو اس نے ہتھوڑا گروپ کے سات ارکان کی مدد سے تیار کیا تھا۔۔۔قاضی فائز عیسی کے کیس میں فیصلہ آتے ہی وکلا نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دئیے تھے اور مٹھائیاں بھی تقسیم ہونی شروع ہو گئی تھیں۔۔۔جرنیلی میڈیا کی مدد سے یہ تاثر بنایا جا رہا تھا کہ سپریم کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کر دیا ہے اور قاضی فائز عیسی اور ان کے وکلا یہ مقدمہ جیت گئے ہیں۔۔۔حقیقت اس کے برعکس تھی۔۔۔اس فیصلے میں سات ججز نے معاملہ ایف بی آر کے حوالے کر کے قبضہ گروپ کے لئے راستہ ہموار کیا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں قاضی فائز عیسی کے خلاف نیا ریفرنس بنا کر ان سے جان چھڑوا لیں۔۔۔لیکن اس سازش کو مطیع اللہ جان نے منٹوں کے اندر ہی بے نقاب کر دیا۔۔۔مطیع اللہ جان کے پروگرام کے بعد بہت سارے صحافیوں نے اسی بات کو ہائی لائٹ کیا ۔

اب تھوڑی سی وضاحت میں اس بات کی بھی کر دیتا ہوں کہ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ توہین عدالت کا یہ نوٹس مطیع اللہ جان کی ٹویٹ پر نہیں لیا گیا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔۔سپریم کورٹ کے ہتھوڑا گروپ کی توہین اگر اتنی اہم ہوتی اور ان لوگوں کو اپنی توہین کا خیال ہوتا تو پچھلے چند ماہ میں اس سے سنگین درجے کی توہین والی باتیں ہو چکی ہیں۔۔۔لیکن ان لوگوں نے کبھی ان کا نوٹس نہیں لیا۔۔۔ٓاپ کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے فیض آباد دھرنے میں ایک علامہ نے ان کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے انہیں باقاعدہ گالیاں بھی دی تھیں۔۔۔میں یہ گالیاں تو نہیں دہراوں گا لیکن ایک گالی پنجابی کی وہ تھی جسے اگر ٓاپ انگریزی میں ٹرانسلیٹ کرنا چاہیں تو اسے pimp یا ٹاوٹ میں سے جو لفظ اچھا لگے وہ استعمال کر لیں۔۔۔لیکن ان گالیوں پر جو کہ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر ویڈیو کی شکل میں موجود ہیں ۔۔۔کسی نے بھی اپنی توہین محسوس نہیں کی۔



جرنیلی صحافی سمیع ابراہیم نے جسٹس کھوسہ کو جسٹس کھوتا کہا لیکن اس پر جواب میں کسی بھی جج نے یا جسٹس کھوتا کہلانے والے نے سمیع ابراہیم یا اس کے چینل کو جوابی دولتی نہیں ماری اور نہ ہی اس پر توہین کا ایسا نوٹس لیا جس طرح کا ان لوگوں نے مطیع اللہ جان کی ایک ٹویٹ پر لیا ہے جس میں انگریزی کا ایک محاورہ بات کو واضح کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

ہتھوڑا گروپ کے ججز نے اس وقت بھی کوئی کاروائی نہیں کی جب بھری عدالت میں کیپٹن انور منصور اٹارنی جنرل ججوں سے مخاطب تھا اور کہہ رہا تھا کہ ٓاپ سب ملے ہوئے ہیں اور ہمیں پتہ ہے کہ قاضی صاحب کی پٹیشن میں کس کا ہاتھ ہے۔۔۔اس وقت قانونی مسخرے اور وزیر قانون فروغ نسیم بھی عدالت میں موجود تھا۔۔۔اس الزام پر نوٹس تو لیا گیا لیکن بات نوٹس سے آگے نہیں بڑھی۔


یہ توہین عدالت اس وقت بھی بنتی تھی جب سپریم کورٹ کے حکم سے تشکیل کردہ تین رکنی ٹریبونل نے جنرل پرویز مشرف المعروف لٹل یحیی کو ڈی چوک میں لٹکانے اور گھسیٹنے کا حکم دیا تھا تو اس کے خلاف ٹوئٹر والے جرنیل نے جو کہ بیسویں گریڈ کا ملازم تھا اس نے اپنی ٹوئٹ میں عدالتی فیصلے کی توہین کی تھی۔۔۔دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ایک سرکاری ملازم عدالت کے فیصلوں پر اس طرح ٹویٹ کر سکتا ہے اور عدالتی مفرور غدارِ وطن کی حمایت میں کوئی بیان جاری کر سکتا ہے۔۔۔لیکن اس توہین پر بھی سپریم کورٹ کے ان ججز نے کوئی نوٹس نہیں لیا کیوں کہ یہ توہین اس قبضہ گروپ کی طرف سے آئی تھی جس کے سامنے پاکستان کا ٓائین قانون اور عدالتی نظام بے بس ہے۔۔۔عمران نیازی اور اس کا چپڑاسی وزیر بھی ایک سے زیادہ بار ان ججز کو شرم دلانے کے لئے تقرریں کر چکے ہیں لیکن ان ججز کی توہین والی وہ حس سوئی رہی جو کہ مطیع اللہ جان کی چند سطروں کی ٹویٹ پر جاگ بھی گئی ہے اور جاگتے ہی ہتھوڑا لے کر مطیع اللہ کی جان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔

مطیع اللہ جان کے خلاف ایک درخواست قبضہ گروپ کے ایک ٹاوٹ کی طرف سے اسلام ٓاباد ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی لیکن جسٹس اطہر من اللہ نے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جج کا احترام اور مقام اتنا گیا گزرا نہیں کہ ایک ٹویٹ سے اسے ٹھیس پہنچ جائے۔۔۔انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ٹوئٹ کے الفاظ نامناسب ہیں لیکن ساتھ ہی اس ٹاوٹ وکیل کو جھاڑتے ہوئے کہا کہ آپ مزید ان الفاظ کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔۔۔ججز ان باتوں کا خیال نہیں کرتے۔۔۔اگر اس طرح سوشل میڈیا پر آنے والے پیغامات پر پر کاروائی شروع کی گئی تو پھر عدالتوں میں مقدمات کا سیلاب ٓا جائے گا۔



مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے کے پیچھے بھی وہی لوگ نظر ٓاتے ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ کے ایک وکیل کو اغوا کر لیا تھا اور پھر جب وہ وکیل اپنے اس اغوا کی وجہ سے سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہو سکا تو چیف جسٹس گلزار نے اس وکیل کی دائر کردہ درخواست کو عدم سماعت کا عذر بنا کر خارج کر دیا تھا اور اس واردات سے بھی وہ اس کاروائی پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ میں جاری ہے۔

 
 
 

Comments


bottom of page