top of page
Search

پنجاب کے غیرت مند گھبرو کہاں ہیں؟۔۔۔کھریاں کھریاں۔۔۔راشد مراد۔۔۔08/09/2020


ان دنوں پنجاب میں جس طرح خلائی مخلوق نے لوگوں کو لاپتہ کرنا شروع کیا ہے اور ماوں بہنوں کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں۔۔۔اس پر امرتا پریتم کی نظم کے چند شعر دہرانے کو جی کر رہا ہے۔۔۔جس میں اس نے پنجابی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر وارث شاہ سے فریاد کی تھی۔۔۔


اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول

تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں لکھ لکھ مارے وین

اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن

اُٹھ دردمنداں دیاں دردیا، اُٹھ تک اپنا پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں، تے لہو دی بھری چناب



اس وقت چناب لہو سے بھری ہوئی تو نہیں ہے لیکن قبضہ گروپ کے لشکری، ہتھوڑا گروپ اور عمران نیازی جیسے سیاستدانوں کو استعمال کرتے ہوئے صورت حال کو اسی طرف لے کر جا رہے ہیں

پنجاب کی موجودہ صورت حال اور خاص کر کاشانہ لاہور میں قتل ہونے والی کائنات کے لئے ماتم کرنے والی افشاں لطیف کی جدوجہد اور ساتھ ساتھ اسلام ٓاباد سے اغوا کئے جانے والے ساجد گوندل کی ماں کے بین سن کر ہی مجھے یہ نظم بھی یاد آ گئی لیکن ساتھ ساتھ مرحوم سلطان راہی بھی بہت یاد آ رہا ہے۔۔۔اس کی فلموں میں ہمیشہ پنجاب کے نوجوانوں کو غیرت مند اور اپنی ماں بہن کی عزت اور عصمت کے لئے کٹ مرنے والا انسان دکھایا جاتا تھا۔


یہ پنجابی ہیرو اپنی بہن کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لینے کے لئے ظالم چوہدری کا پورا ٹبر مار دیتا تھا۔۔۔ظاہر ہے یہ سب فلمی انداز میں ہوتا تھا اس لئے اس میں بہت زیادہ مبالغے سے بھی کام لیا جاتا تھا اور اس حوالے سے لوگ جگتیں بھی مارا کرتے تھے اور خاص کر عمر شریف جیسے متعصب لوگ بال کی کھال نکالتے ہوئے اس فلمی مکالمہ بازی کو بھی پنجاب کے کلچر کا مزاق اڑانے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے۔

ایک فلم مجھے بھی کچھ کچھ یاد ہے کہ اس میں ہیرو اپنی اغوا شدہ بہن کو بازیاب کروانے کے لئے ولن کی حویلی میں خون خرابہ کرتا ہوا پہنچ جاتا ہے اور ولن کو اس کے انجام تک پہنچانے سے پہلے اس سے اپنی بہن کے دوپٹے کا مطالبہ کرتا ہے۔۔۔دوپٹہ پنجاب میں غیرت کی علامت ہے۔۔۔ڈائیلاگ لکھنے والے نے اس مار دھاڑ والے جذباتی منظر میں رنگ بھرنے کے لئے ہیرو کے مکالموں میں بہن کی جگہ دوپٹے کا زکر کیا۔۔۔لیکن اس مکالمے کی گہرائی اور اس میں استعمال ہونے والی علامت پر غور کرنے کی بجائے عمر شریف اینڈ کمپنی اس پر جگتیں لگاتے ہوئے بات ایسے بیان کرتی ہے جیسے ہیرو کو اپنی بہن سے زیادہ اس کے دوپٹے کی زیادہ فکر ہے۔



بہر حال بات تھوڑا سا اصل موضوع سے دور جا رہی ہے۔۔۔کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پنجابی فلموں میں بھی پنجابی ادب کی طرح ماں بہن کے لئے ادب احترام اور ان کی عزت کی حفاظت کے لئے سب کچھ قربان کرنے والے جذبے کو اسی لئے دکھایا جاتا تھا کہ یہ جذبہ پنجاب کے لوگوں میں موجود ہے اور اسی جذبے کو فلمی رائٹر اور ڈائرکٹر اپنی فلموں کا کامیاب بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ دکھایا کرتے تھے۔

پنجاب کے لوگوں میں یہ جذبہ ایسا لگتا ہے کہ پہلے سے کم ہوتا جا رہا ہے۔۔۔پنجاب کا زرعی معاشرہ چونکہ ایک صنعتی معاشرے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اس سے پنجاب کے لوگوں کی اخلاقیات بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے۔۔۔روپے پیسے کی تلاش میں لوگ اپنی پرانی روایات کو چھوڑتے جارہے ہیں۔


کئی ماہ سے میں لاہور کی سڑکوں پر کاشانہ لاہور کی سپرینٹینڈنٹ افشاں لطیف کو احتجاج کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔۔۔اس کا یہ احتجاج اپنی زات کے لئے نہیں ہے۔۔۔یہ ان گمشدہ پنجابی لڑکیوں کے لئے آواز اٹھا رہی ہے جنہیں کاشانہ لاہور سے غائب کر دیا گیا۔۔۔کائنات اور دیگر لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے اس ریاستی ظلم پر افشاں لطیف ایک عرصے سے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔

افشاں لطیف نے چند روز پہلے عمران نیازی کے سرکاری گھر کے سامنے بھی دھرنا دیا تھا اور اب وہ بائیس ستمبر کو اس کے چیلے عثمان بزدار کے گھر کے سامنے دھرنا دے رہی ہے۔۔۔سب پنجابیوں خاص کر لاہور اور اس کے گردونواح میں رہنے والے پنجابیوں کا فرض ہے کہ وہ اس کا ساتھ دیں۔۔۔یہ احتجاج نہ صرف ان مظلوم بچیوں کو بازیاب کرنے میں مدد آئے گا لیکن اس سے آپ کی سیاسی تربیت میں اور اضافہ ہو گا۔۔۔اس وقت آپ قبضہ گروپ کے خلاف سڑکوں پر آنے سے گبھرا رہے ہیں۔۔۔اس گبھراہٹ کو دور کرنے کے لئے اس احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی عوامی طاقت کا اظہار بھی کریں اور اس احتجاج کی مدد سے اپنے اندر عوامی اتحاد کو اور بھی مضبوط کریں ۔



کل ساجد گوندل کے پورے ٹبر نے اسلام آباد میں احتجاج کیا۔۔۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا ہوا ہے لیکن یہ وہی نوٹس ہے جس کے بارے میں ایک لوٹے سیاستدان نے کہا تھا کہ

نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا

عدالت نے سرکاری افسروں کی جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے انہیں حکم دیا ہے کہ اسے فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔۔۔نیب کے چمی چیرمین نے جس نے ایک ٹانگ مسنگ پرسنز والے کمیشن میں بھی اڑا رکھی ہے۔۔۔اس نے بھی اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے ۔۔۔میری زاتی رائے میں تو یہ ساجد گوندل کے حق میں اچھا نہیں ہے کیوں کہ چمی چیئرمین کے اس معاملے میں گھس بیٹھنے سے فائدہ انہی لوگوں کا ہو گا جنہوں نے ساجد گوندل کو اپنے مہمان خانے میں رکھا ہوا ہے۔۔۔اس کا اغوا کا پس منظر تو آپ سب کو پتہ ہے کہ پاپا جی پیزے والے کی ٹبر کی کرپشن کہانی سامنے آنے کا غصہ اس بے گناہ پر نکالا جا رہا ہے۔۔۔پنجابی کے اس محاورے کی طرح ۔۔۔ڈگا کھوتی توں تے غصہ کمہار تے۔


پاکستان کے قبضہ مافیا نے سندھ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی اور جبری اغوا والی کاروائیاں اب پنجاب میں بھی شروع کر رہا ہے۔۔۔ پنجاب میں ابھی اس مہم کا آغاز ہوا ہے۔۔۔پنجاب کے لوگوں نے دوسرے صوبوں کے مظلوم لوگوں کا زیادہ کھل کر ساتھ نہیں دیا۔۔۔اب اسی بے حسی کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ گروپ پنجاب میں بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جو اس نے چھوٹے صوبوں میں استعمال کئے ہیں۔

اب وارث شاہ کے پنجاب پر بسنے والوں کا فرض ہے کہ وہ میدان میں آئیں اور کاشانہ لاہور کی گمشدہ بچیوں کی بازیابی کے لئے بھی کوششیں کریں اور ساجد گوندل کی والدہ کی چیخ و پکار پر بھی کان دھریں اور ظالموں کے جی ایچ کیو پر انہی کے چیلے عمران نیازی والے اسٹائل میں ایسا دھرنا دیں کہ وہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں لوگوں کو جبری اغوا کرنے والا سلسلہ بند کردیں۔۔۔اگر اس وقت پنجاب کے غیرت مند گبھرو صرف سوشل میڈیا پر ہی ماتم کریں گے تو جلد ہی افشاں لطیف اور ساجد گوندل کی ماں کی طرح ان کی مائیں بہنیں بھی اسی طرح سڑکوں پر ماتم کرتی ہوئی نظر آئیں گی جس طرح ایک عرصے سے سندھ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے گم شدہ نوجوانوں کی مائیں بہنیں ماتم کر رہی ہیں۔

آخر میں مرحوم حبیب جالب کا ایک مصرعہ آپ سب کی توجہ کے لیئے۔۔۔

جاگ مرے پنجاب کہ پاکستان چلا



 
 
 

Comments


bottom of page