top of page
Search

چمن بارڈر پر قبضہ گروپ کی عوام دشمن کاروائی۔۔۔کھریاں کھریاں ۔۔۔راشد مراد۔۔۔02/08/2020


قبضہ گروپ کی چمن بارڈر پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف بندوق کے استعمال سے اس کا منافقانہ کردار اور دوغلا پن صاف جھلک رہا ہے۔۔۔دوغلا پن اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جس طرح چمن بارڈر پر بلوچستان کے محنت کشوں نے اپنے مطالبات کے لئے پچھلے دو ماہ سے دھرنا دے رکھا تھا۔۔۔اسی طرح کا ایک دھرنا فیض آباد میں وردی والوں کی سرپرستی میں بھی دیا گیا تھا۔۔۔ عوامی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس دھرنے کو ختم کرنے کے لئے جب حکومت نے پولیس کا استعمال کیا اور قریب تھا کہ وہ اس دھرنے کو بغیر کسی جانی نقصان کےختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔۔۔عین اس وقت خلائی مخلوق کے لشکری دھرنے والوں کی مدد کے لئے میدان میں کود پڑے اور انہوں نے پولیس کو مار پیٹ کر فیض آباد ایک بار پھر دھرنا لشکر کے حوالے کر دیا۔۔۔اس دھرنے میں خلائی مخلوق کے کردار کی تصدیق کے لئے ٓاپ لوگ جسٹس قاضی فائز عیسی کا دیا گیا فیصلہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔


فیض آباد دھرنے کے برعکس چمن کے بارڈر پر دھرنا ایک عوامی دھرنا تھا جسے کسی سرکاری ادارے کی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔۔۔دو ماہ سے زیادہ ہو گئے تھے ان لوگوں کو کھلے ٓاسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے۔۔۔ان کی حکومت سے کوئی بڑی ڈیمانڈ نہیں تھی۔۔۔یہ لوگ صرف یہ چاہتے تھے کہ چمن بارڈر کو پہلے کی طرح کھول دیا جائے تا کہ افغان سرحد کے ساتھ زیرو پوائنٹ پر روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کے لئے جانے والے ہزاروں محنت کش اپنے بچوں کے لئے روزی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔

مقامی تاجر بھی اس بندش کی وجہ سے متاثر ہو رہے تھے اس لئے وہ بھی ان مزدوروں کے ساتھ احتجاج میں شامل تھے۔۔۔لیکن دھرنے والوں سے دو ماہ کے طویل عرصے میں نہ تو صوبائی حکومت کی طرف سے سنجیدہ مذاکرات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی صوبے کے اصلی مالکوں نے جن کے پاس اس بارڈر کا کنٹرول بھی ہے انہوں نے دھرنا دینے والوں کے جائز مطالبات پر غور کیا۔

چمن بارڈر پر دیئے جانے والے دھرنے کو منتشر کرنے کے لئے فیض آباد دھرنے میں پیسے تقسیم کرنے والوں نے نہ تو پیار محبت سے کام لیا۔۔۔نہ ہی ان بے روزگار اور فاقہ کش مزدوروں میں فیض ٓاباد دھرنے کی طرح لفافے تقسیم کئے ۔۔۔الٹا انہیں منتشر کرنے کے لئے ان پر گولیاں چلائی گئیں۔۔۔جس کے نتیجے میں بے گناہ لوگ جاں بحق بھی ہوئے اور زخمی بھی ہوئے۔

تاجر رہنما صادق خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق ہوئے اور تیس افراد زخمی ہوئے۔۔۔پاکستان کے جرنیلی میڈیا نے تو حسبِ روایت اس جرنیلی تشدد کی کوئی خبر نہیں دی بلکہ انہوں نے تو دو ماہ سے جاری اس دھرنے کی کوئی کوریج بھی نہیں کی تھی۔۔۔اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ یہ دھرنا چونکہ فیض ٓاباد والے دھرنے کی طرح خلائی مخلوق کا اسپانسرڈ نہیں تھا۔

اس ریاستی تشدد کے خلاف مظاہرین نے بھر پور احتجاج کیا۔۔۔ ریاستی تشدد کے ردِ عمل میں مظاہرین نے چمن بارڈر کے قریب سرکاری دفاتر کو بھی ٓاگ لگا دی ۔



اس کے علاوہ سب سے اہم واقعہ یہ ہوا کہ مظاہرین نے قبضہ گروپ کی گاڑیوں پر اسی طرح کا پتھراو بھی کیا جس طرح کا پتھراو ان پر وزیرستان اور پاڑہ چنار میں پچھلے دنوں ہوا تھا۔۔۔چمن والے پتھراو کو ٓاپ اس عوامی پتھراو کی ہیٹ ٹرک بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ دنوں کے اندر مکمل ہوئی ہے۔۔۔اس ہیٹ ٹرک سے قبضہ گروپ والے چاہیں تو سبق بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ ابھی ان کے اندر طاقت کا نشہ اسی طرح موجود ہے اور یہ انتظار کر رہے ہیں کہ جب تک پنجاب کے بڑے شہروں میں ان کا پتھریلا استقبال شروع نہیں ہوتا یہ اپنا فوجی ڈنڈا اسی طرح چلاتے رہیں گے۔

تازہ ترین اطلاعات کےمطابق چمن میں لوگوں پر دو روز تشدد کرنے بعد اب حکومت اور اس کے سرپرستوں نے مظاہرین سے مذاکرات کئے ہیں اور ان کے وہ مطالبات بھی مان لئے ہیں جن کے لئے وہ پچھلے دو ماہ سے پرامن احتجاج کر رہے تھے۔۔۔مطالبات تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ چمن کا بارڈر دوبارہ کھول دیا جائے گا ۔۔۔یہ مذاکرات بظاہر تو بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کی صدارت میں ہوئے لیکن ان مذاکرات میں خلائی مخلوق کے نمائندے بھی موجود تھے تا کہ فوری طور پر فیصلہ کر کے صورت حال کومزید بگڑنے سے بچایا جا سکے اور مظاہرین جنہوں نے فوجی گاڑیوں پر پتھراو بھی شروع کر دیا تھا اور اس پہلے سرکاری دفاتر کو ٓاگ بھی لگا دی تھی انہیں بے قابو ہونے سے روکا جا سکے۔

اعلامیہ کے مطابق حکومت نے مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے بارڈر کی وہ صورت بحال کر دی ہے جو کہ دو مارچ سے پہلے والی تھی اور اب جن تاجروں اور مزدوروں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان راہداری ہو گی وہ روزانہ کی بنیاد پر پہلے کی طرح افغانستان جا سکتے ہیں اور اپنے بچوں کے لئے روزی روٹی کما سکتے ہیں۔

تاجر برادری کے رہنما صادق اچکزئی نے یہ بھی بتایا ہے کہ حکومت کی طرف سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو معاوضہ بھی دیا جائے گا۔

اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس خون خرابے کے بعد جب مظاہرین کے مطالبات کو جائز تسلیم کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر مان بھی لیا گیا تو ایسا دو ماہ پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔




لیکن یہ فوجی حکومت لاتوں والا ایسا بھوت ہے جو کہ باتوں سے نہیں مانتا۔۔۔دو مہینے تک بلوچستان کے ان مزدوروں اور تاجروں کی چیخ پکار پر اس حکومت نے کان نہیں دھرا اور صورت حال کو اس نہج پر پہنچا دیا جس میں خونی تصادم ہوا۔۔۔بے گناہ لوگ جاں بحق بھی ہوئے اور زخمی بھی ہوئے۔۔۔چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس ریاستی تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔۔ان بچوں کو یتیم کرنے کے بعد قبضہ گروپ نے ہوش کے ناخن لئے ہیں ۔۔۔ بہتر ہوتا کہ یہ مذاکرات بہت پہلے کر لئے جاتے ۔۔۔لیکن چونکہ یہ دھرنا فیض ٓاباد والے دھرنے کی طرح اسپانسرڈ نہیں تھا۔۔۔انہیں کسی خلائی لشکر کی سرپرستی بھی میسر نہیں تھی۔۔۔اس لئے ان بے سہارا لوگوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔

 
 
 

Comments


bottom of page