کمانڈ فنڈ کے نام پر جرنیل کرپشن کیسےکرتے ہیں؟ کھریاں کھریاں۔۔۔راشد مراد۔۔۔22/08/2020
- RMTV London
- Aug 23, 2020
- 7 min read

آج کھریاں کھریاں میں اس واردات کا زکر کرنا ہے جو پاکستانی فوج کے کور کمانڈر کمانڈ فنڈ کے نام پر کرتے ہیں۔۔۔یہی وہ قومی خزانہ ہے جو پہلے عوام کی جیبوں پر ڈاکے مار کر کور کمانڈر اپنے جوانوں کی فلاح و بہبود اور اپنی کور کا کاروبار چلانے کے لئے اکٹھا کرتا ہے لیکن پھر اس خزانے کو اپنی زاتی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کر دیتا ہے۔
پچھلے دنوں آپ نے باجوائی پاکستان کے ایک جرنیل کے اثاثوں کی تفصیل یقیننا دیکھی ہو گی جس میں اس مجاہد نے کروڑوں کی گاڑی کی قیمت تیس لاکھ ڈیکلیر کی تھی ۔۔۔سوشل میڈیا پر بہت سارے گستاخوں نے اس سے رسیدیں مانگیں لیکن اس نے رسیدیں دینا تو کجا اس سوال کا جواب بھی دینے سے انکار کیا۔۔۔ایک صحافی نے بھی سوال پوچھنے کی گستاخی کی تو اسے جواب میں نوکری سے نکلوا دیا۔۔۔اب یہ صحافی شاید اپنی نوکری پر بحال ہو چکا ہے لیکن اس کو زور سے لگنے والے اس جرنیلی جھٹکے نے باقی صحافیوں کی زبانوں کو تالے لگا دیئے ہیں۔
پاکستانی فوج کے کور کمانڈر جو کسی زمانے کروڑ کمانڈر کہلاتے تھے وہ اسی فنڈ کی بدولت سستے پاکستان میں کروڑ پتی ہو جایا کرتے تھے۔۔۔ان دنوں چونکہ بہت سارے جرنیلوں کی توندیں نکل آئی ہیں اور انہیں پیٹ کے اس دوزخ کو بھرنے کے لئے اربوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اس کمانڈ فنڈ میں بھی لوٹ مار کو اسی تناسب سے بڑھا دیا گیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس لوٹ مار کو اور پھر اس کی جرنیلی تقسیم کو فوج کے قانون کے مطابق حلال کرپشن تصور کیا جاتا ہے۔
اب آپ یقیننا یہ پوچھنا چاہیں گے کہ اگر یہ کرپشن حلال ہے تو حرام کرپشن کونسی ہوتی ہے۔۔۔تو اس سلسلے میں سادہ سا جواب ہے ۔۔۔ایسی تمام چھوٹی موٹی کرپشن جس میں چھیل چھبیلے کرنیل جرنیل ملوث نہ ہوں وہ حرام کرپشن ہوتی ہے اور صرف اور صرف کرنیلوں جرنیلوں والی کرپشن حلال ہوتی ہے۔۔۔اگر کبھی کسی جرنیل کی کرپشن پر حرام ہونے کا الزام لگ جائے تو پھر اس کرپشن والے اربوں میں سے دو چار ارب کی خیرات حکومت کو دے کر باقی کی کرپشن کو حلال کروا لیا جاتا ہے۔
اس کمانڈ فنڈ کے بارے میں معلومات دروغ بر گردنِ راوی ہیں۔۔۔لیکن یہ راوی بھی اسی قبیلے کا ایک باغی ہے۔۔۔اس نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔۔بیان بھی انہی کا ہے اور الفاظ بھی انہی کے ہیں۔۔۔اگر ان صاحب کی معلومات پر کسی کور کمانڈر کو اعتراض ہے یا اس کے پاس مختلف معلومات ہیں تو وہ ہم سے واٹس ایپ پر رابطہ کر سکتے ہیں۔۔۔اسی واٹس ایپ نمبر پر جسے یہ ہمیں ڈرانے دھمکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔۔ہم اس کی بھیجی ہوئی معلومات اس راوی سے اس کا پوائنٹ آف ویو لینے کے بعد ٓاپ سب کے ساتھ شئیر کر دیں گے۔
کمانڈ فنڈ والے راوی کا کہنا ہے کہ فوج کے ہر کمانڈر کے پاس ایک فنڈ ہوتا ہے جسے کمانڈ فنڈ کہتے ہیں۔۔۔ اس فنڈ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اس سے کام لیا جائے۔۔۔اسی فنڈ میں سے بعض اوقات مخبروں کو بھی انعام دیا جاتا ہے۔۔۔اس لئے اس کا استعمال خفیہ رکھا جاتا ہے۔
یہاں میں ٓاپ کو یاد کراتا چلوں کہ سوشل میڈیا بریگیڈیر ریٹائرڈ حامد سعید کا انٹرویو موجود ہے جس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کامران خان نامی صحافی بھی ان کے پے رول پر تھا اور وہ ہر ماہ اسے آٹھ ہزار روپے دیا کرتے تھے۔۔۔یہ سستے زمانے کی بات ہے۔۔۔ان دنوں تو کامران خان کا لیول بھی کور کمانڈر سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ اب نکے اور اس کے اس کے ابے کے لئے ڈائرکٹ کام کر رہا ہے۔
ایوب خان کے مارشل لا میں فوجی کمانڈروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اس فنڈ کے لئے خود Resources پیدا کریں۔۔۔اسے فوج میں اخپل بندوبست کہا گیا۔۔۔اخپل پشتو کا لفظ ہے ۔۔اردو میں یوں کہہ لیں کہ اپنی مدد آپ والے فارمولے پر مال اکٹھا کرنے کا حکم دیا گیا۔۔۔اس کے علاوہ ایک اور فارمولا اختیار کیا گیا جو آج تک استعمال ہو رہا ہے۔۔۔
Beg ،Borrow or Steal
اسی کے تحت ایوب خان نے فوج کو ٹریننگ اور چاند ماری کے لئے زمینیں الاٹ کر دیں مگر ساتھ ہی مقامی کمانڈروں کو یہ زمینیں ٹھیکے پر دینے کی اجازت بھی دے دی جس کی وجہ سے سرگودھا، بھکر، ملتان،بہاولپور اور اندرون سندھ بڑے بڑے فارم بنا کر ٹھیکے پر دیئے گئے۔۔۔ان رقبوں کو پانی عام کسانوں کی زمینوں کی نسبت بہت زیادہ دیا جاتا تھا۔۔۔اس لئے ان جرنیلی کھیتوں کی فصلیں بھی دوسرے کاشتکاروں کے مقابلے میں بہت اچھی تھیں۔۔۔یہ ساری کمائی حکومت کے خزانے میں جانے کی بجائے فوج کے کمانڈ فنڈ میں جانے لگی لیکن اس ساری رقم کا کوئی آ ڈٹ نہیں ہوتا۔۔۔کور کمانڈر سے اس فنڈ کا حساب کتاب نہیں مانگا جا سکتا۔۔۔ویسے تو فوج کا سارا بجٹ ہی پاکستان کے آڈٹ کے نظام سے باہر ہے لیکن یہ فنڈ کور کمانڈر کے اختیار میں ہے اور اس سے اس حوالے سے ایسی کوئی رسیدیں طلب نہیں کی جا سکتیں جس طرح کی رسیدیں پاکستانی سیاسی حکومتوں کو مہیا کرنی پڑتی ہیں۔
فوج کا اپنا ایک آ ڈٹ کا نظام ہے جس میں جی ایچ کیو کی ٹیم کور ہیڈ کوارٹرز کے فنڈ اور منصوبوں کا آڈٹ کرتی ہے مگر کمانڈ فنڈ کا آڈٹ کیلئے انٹرنل آڈٹ کیا جاتا ہے۔۔۔کسی بھی ماتحت افسر کے تحت ایک بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے جو ایک سرٹیفیکیٹ کمانڈر کے پاس جمع کروا دیتا ہے۔۔۔یہ برائے نام آدٹ ہوتا ہے اور سب اوکے کی رپورٹ دے کر کرپشن کا جنازہ دفنا دیا جاتا ہے۔۔۔جب کوئی کمانڈر ٹرانسفر ہو جاتا ہے تو وہ اپنے کمانڈ فنڈ کا حساب کتاب والا رجسٹر کا بھی دی اینڈ کر دیتا ہے اور آنے والا کمانڈر پچھلے حساب کتاب میں جھانکنے کی بجائے ایک نیا کھاتا کھول لیتا ہے۔
اسی Beg ,Borrow or Steal والی حکمت ِ عملی کے تحت ہی کافی عرصے سے فوج نے پٹرول پمپ لگانے شروع کر دیئے اور کینٹ کے علاقوں میں بڑے بڑے سپر سٹور اور پلازے بن گئے اور ان کی آمدن بھی کمانڈ فنڈ کا حصہ بننے لگی۔۔۔پھر چوروں کے سردار پرویز مشرف کا دور آیا۔۔۔اس جرنیلی شہنشاہ سے پہلے بھی کمانڈ فنڈ کمانڈر اپنی مرضی سے خرچ کرتے تھے لیکن اس شہنشاہ نے اپنے سارے نو رتنوں کو راضی رکھنے کے لئے تمام جنرلز کو اجازت دے دی کہ ان کے گھروں کی بجلی فری ہو گی اور وہ اپنے گھریلو اخراجات کے لئے کمانڈ فنڈ خرچ کر سکتے ہیں۔۔۔ ملک کے تمام کنٹونمنٹ میں گزرنے والی تمام سڑکوں پر لگے اشتہاری بورڈز کا کرایہ بھی فوج ہی وصول کرتی ہے۔۔۔ان بل بورڈز سے اربوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔
لاہور کا فورٹریس اسٹیڈیم جس کے گرد شاپنگ مال اور ریسٹورنٹ ماہانہ کروڑوں روپے یونٹ کمانڈر کی توسط سے مختلف کمانڈروں سے ہوتے ہوئے ۔۔۔کور کمانڈر لاہور کے کمانڈ فنڈ میں پہنچ جاتے ہیں۔ چھوٹی سی وضاحت ان صاحب نے یہ بھی کی ہے اس رقم میں سے یونٹ کمانڈر بھی اپنے کمانڈ فنڈ کے لئے رقم رکھتا ہے اور اسی طرح کور کمانڈر تک پہنچنے سے پہلے سارے کمانڈر اپنے اپنے کمانڈ فنڈ کے لئے اس میں سے کچھ رقم رکھ لیتے ہیں۔۔۔اسی طرح دیگر بڑے شہروں میں سرکاری اراضی پر فوج کی طرف سے بنائے گئے پلازوں اور شادی ہالوں کی آمدنی بھی مختلف چینلز سے گزرتی ہوئی کور کمانڈر کے کمانڈ فنڈ میں پہنچ جاتی ہے۔
اس ساری جرنیلی آمدنی کے بارے میں اس راوی کا کہنا ہے کہ اگر ساری آمدنی کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جائے تو اس سے دفاع کا کم ازکم دس فیصد بجٹ پورا کیا جاسکتا ہے مگر اس فنڈ کو کور کمانڈر اپنی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرتے ہیں۔۔۔ہر کور کمانڈر کے لئے درجنوں گاڑیاں اسی فنڈ سے خریدی جاتی ہیں۔۔۔فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسی سہولیات والے آفیسرز میس کی ساری رونقیں بھی اسی فنڈ کی بدولت ہیں ۔
ان صاحب کا یہ دعوی بھی ہے کہ کور کمانڈر کے کچن کا خرچہ بھی اسی کمانڈ فنڈ سے چلتا ہے۔۔۔فیملی کے دیگرلوازمات بھی اسی فنڈ سے پورے کئے جاتے ہیں ۔۔۔مہمانوں کے لئے مہنگے تحفے تحایف بھی اسی فنڈ سے خریدے جاتے ہیں ہے اور اسی فنڈ کی مدد سے کمانڈر مہنگی مہنگی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بھی خرید لیتے ہیں۔۔۔اپنے فارم ڈویلپ کر لیتے ہیں اور شاندار پلازوں کے مالک بن جاتے ہیں۔۔۔ان صاحب کا یہ بھی بتانا ہے کہ فوج کے تمام جنرلز کے گھر ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی تیار ہو جاتے ہیں اور پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی چینز ان میں فرنیچر اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہیں۔
ان صاحب نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ پانچ سے چھ کنال پر ایک سرکاری ملازم گھر کیسے بنا لیتا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب کمانڈ فنڈ کی برکت ہے جس کی ابتدا وہ فوجی افسر یونٹ سے کرتا ہے۔۔پہلے پہل لنگر کی بچی روٹیاں بیچی جاتی ہیں۔۔۔پھر یونٹ کا راشن اور تیل بیچا جاتا ہے اور آخر میں جب جنرل بن جاتے ہیں تو پھر اپنے ہی شہریوں کو بیچنے سے باز نہیں آتے۔۔۔ان صاحب نے اس عوامی خرید و فروخت کی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کا اشارہ پرویز مشرف کی طرف ہے جس نے بندے بیچنے کا اعتراف بھی کر رکھا ہے۔
ان صاحب کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بارہا حکم دیا کہ فوج کس قانون کے تحت تجارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور لاہور کراچی میں لگے ہوئے بل بورڈز کو انسانی جانوں کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کئی بار انہیں اتارنے کا حکم دیا مگر آج تک اس حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔۔۔ان صاحب نے پچھلے دنوں کراچی میں ایسے ہی ایک حادثے میں جانے والی دو قیمتی جانوں کا بھی زکر کیا ہے جس کے بعد کمشنر کراچی کو حکم ہوا کہ انکوائری کر ے مگر کمشنر فوج سے انکوائری کیسے کر سکتا ہے۔۔۔اور وہ بھی ایسی انکوائری جس سے کمانڈ فنڈ کو نقصان پہنچنے گا۔۔۔ایک آخری بات اس راوی نے یہ بتائی ہے کہ کمانڈر کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ کسی بھی ٹریننگ فنڈ کو کمانڈ فنڈ میں بدل سکتا ہے اور یوں یہ فنڈ بھی آڈٹ سے مستثنی ہو جاتا ہے۔
ان صاحب نے ایک سوال یہ اٹھایا ہے کہ سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد بقایا جات پراویڈینٹ فنڈ وغیرہ ملنے پر گھر بناتے ہیں مگر ہمارے جرنیل کے لئے کیسے ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی چھ کنال پر بنگلہ،پچاس ایکڑ پر فارم ہاوس، پلازہ اور ملک سے باہر فلیٹ اور کروڑوں روپے کی گاڑیوں کا فلیٹ کیسے تیار ہو جاتا ہے؟
میرے پاس تو نہ اس سوال کا جواب ہے اور نہ ہی کمانڈ فنڈ کے بارے میں ان کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرنے کے زرائع۔۔۔کمانڈ فنڈ خرچ کرنے والے اس سوال کا جواب بھی دے سکتے ہیں اور اپنا موقف بھی بیان کر سکتے ہیں لیکن Beg ،Borrow or Steal والے فارمولے پر کام کرنے والوں کو پرانا پاکستان برباد کرنے سے فرصت نہیں اس لئے یہ ان باتوں کے لئے کہاں وقت نکالیں گے۔
Comentarios